Sunday, 6 April 2025

نئی ہے بالکل نئی ہے صاحب جو داستاں سنا رہا ہوں

 

نئی ہے بالکل نئی ہے صاحب

نئی ہے بالکل نئی ہے صاحب یہ داستاں جو سنا رہا ہوں

ابھی ابھی ہی بنا ہوں بندہ پہلے میں بھی خدا رہا ہوں

ذرا یہ شمس و قمر سے کہہ دو وہ اب شعاعوں کو بھول جائیں

میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں

وہ فخرِ آدم میں ابنِ آدم ہے میری غیرت کا یہ تقاضا

الٰہی مجھ کو نہیں ضرورت میں اپنی جنت بنا رہا ہوں

سراپا غم بھی ہو کیف و مستی نہ جس میں ہو یہ فریبِ ہستی

جو پاک تر ہو حرص ہوس سے میں ایسی دنیا بسا رہا ہوں

وہ کیسی شب تھی تھا کیسا منظر کسی کو سوتے میں آ جگایا

اسی ادا سے اسی ادب سے میں زخم اپنے جگا رہا ہوں

کبھی جو تنہائی دے اجازت تو قادریؔ یہ پیام دنیا

نہ رندو گھبراؤ میکدے میں مکیں آ رہا ہوں میں آ رہا ہوں

موصوف صفت میں پنہاں ہے تنقید گوارا کیسے ہو(غزل)

 موصوف صفت میں پنہاں ہے تنقید گوارا کیسے ہو

موصوف صفت میں پنہاں ہے تنقید گوارا کیسے ہو

ہے دیدِ بتاں دیدارِ خدا انکار کا یارا کیسے ہو

ہم ماننے والے صورت کے جو مظہر ہے بے صورت کا

سجدہ نہ کریں گر صورت کو پھر اپنا گذارا کیسے ہو

گر گر کے سنبھلتے ہیں لیکن نظروں کا تصادم قائم ہے

جو ایک جھلک سے گر جائے دیدار دوبارہ کیسے ہو

دیوانے تو بنتے ہیں لاکھوں تھا قیس فقط اک دیوانہ

جس بات میں لیلیٰ کا ذکر نہیں وہ بات گوارا کیسے ہو

ہے یاد تری ایمان مرا منظور ہے ہر فرمان ترا

جس در سے نبی تقدیر مری اس در سے کنارا کیسے ہو

ہم حشر کے دن بن جائیں گے محتاجِ دعا محتاجِ نظر

جنہیں قادریؔ زعم عبادت کا رحمت کا اشارا کیسے ہو

پھروں ڈھونڈتا مہکدہ توبہ توبہ

 پھروں ڈھونڈتا مے کدہ توبہ توبہ

پھروں ڈھونڈتا مے کدہ توبہ توبہ مجھے آج کل اتنی فرصت نہیں ہے

سلامت رہے تیری آنکھوں کی مستی مجھے مے کشی کی ضرورت نہیں ہے

یہ ترک تعلق کا کیا تذکرہ ہے تمہارے سوا کوئی اپنا نہیں ہے

اگر تم کہو تو میں خود کو بھلا دوں تمہیں بھول جانے کی طاقت نہیں ہے

ہمیشہ مرے سامنے سے گزرنا نگاہیں چرا کر مجھے دیکھ لینا

مری جان تم مجھ کو اتنا بتا دو یہ کیا چیز ہے گر محبت نہیں ہے

ہزاروں تمنائیں ہوتی ہیں دل میں ہماری تو بس اک تمنا یہی ہے

مجھے اک دفعہ اپنا کہہ کے پکارو بس اس کے سوا کوئی حسرت نہیں ہے

کس کو سناؤں حال غم

 کس کو سناؤں حال غم کوئی غم آشنا نہیں

کس کو سناؤں حال غم کوئی غم آشنا نہیں

ایسا ملا ہے درد دل جس کی کوئی دوا نہیں

میری نماز عشق کو شیخ سمجھ سکے گا کیا

اس نے در حبیب پہ سجدہ کبھی کیا نہیں

مجھ کو خدا سے آشنا کوئی بھلا کرے گا کیا

میں تو صنم پرست ہوں میرا کوئی خدا نہیں

کیسے ادا کروں نماز کیسے جھکاؤں اپنا سر

صحن حرم میں شیخ جی یار کا نقش پا نہیں

کیا ہیں اصول بندگی اہل جنوں کو کیا خبر

سجدہ روا کہاں پہ ہے سجدہ کہاں روا نہیں

مجھ سے شروع عشق میں مل کے جو تم بچھڑ گئے

بات ہے یہ نصیب کی تم سے کوئی گلہ نہیں

مجھ کو رہ حیات میں لوگ بہت ملے مگر

ان سے ملا دے جو مجھے ایسا کوئی ملا نہیں

اپنا بنا کے اے صنم تم نے جو آنکھ پھیر لی

ایسا بجھا چراغ دل پھر یہ کبھی جلا نہیں

عشق کی شان مرحبا عشق ہے سنت خدا

عشق میں جو بھی مٹ گیا اس کو کبھی فناؔ نہیں

کلام فنا بلند شہری

Sunday, 2 March 2025

مل کے بچھڑے جو تُم (غزل)

Sell on  Sellfy Start Free Store 

غزل

شاعر   فنا بلند شہری

مل کے بچھڑے جو تپم ہر خُوشی چھن گئی آرزؤں کا سارا جہاں لُٹ گیا

راس آئی نہ فرقت کسی کو کبھی تم وہاں لُٹ گئے میں یہاں لُٹ گیا

میں اکیلا کھڑا تھا راہ عشق میں کوئی رہبر نہیں کس سے پوچھوں پتہ

اُن کو ڈھونڈوں کہاں 


Earn with Swagbuck