نئی ہے بالکل نئی ہے صاحب
نئی ہے بالکل نئی ہے صاحب یہ داستاں جو سنا رہا ہوں
ابھی ابھی ہی بنا ہوں بندہ پہلے میں بھی خدا رہا ہوں
ذرا یہ شمس و قمر سے کہہ دو وہ اب شعاعوں کو بھول جائیں
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں
وہ فخرِ آدم میں ابنِ آدم ہے میری غیرت کا یہ تقاضا
الٰہی مجھ کو نہیں ضرورت میں اپنی جنت بنا رہا ہوں
سراپا غم بھی ہو کیف و مستی نہ جس میں ہو یہ فریبِ ہستی
جو پاک تر ہو حرص ہوس سے میں ایسی دنیا بسا رہا ہوں
وہ کیسی شب تھی تھا کیسا منظر کسی کو سوتے میں آ جگایا
اسی ادا سے اسی ادب سے میں زخم اپنے جگا رہا ہوں
کبھی جو تنہائی دے اجازت تو قادریؔ یہ پیام دنیا
نہ رندو گھبراؤ میکدے میں مکیں آ رہا ہوں میں آ رہا ہوں